For Contact Us
Go to Contact Page
or
Mail:contact@makhdoomashraf.com
Cal:+91-9415721972

اخلاق و عادات


حضرت غوث العالم کی زندگی اخلاق نبوی اور شریعت مصطفوی ﷺ کا عملی نمونہ تھی۔ آپ کی زندگی کا کوئی حصہ عبادت اور ذکرسے خالی نہیں رہتا تھا۔ آپ کایہ معمول تھاکہ رات کا دو حصہ عبادت الٰہی میں گذارتے تھے اوربیچ کے ایک حصہ میں سوتے تھے۔ آپ نے اپنے ایک مریدکو خط کے ذریعہ عبادت الٰہی پر زور دیا اور اس سلسلے میں چند ہدایات فرمائیں جن پرعمل کرنے کی تاکید فرمائی، جس سے خود حضرت کے اخلاق و عادات پربھی روشنی پڑتی ہے۔حضرت نے اس خط میں تحریر فرمایاکہ:۔
”جو اپنانصیب جگا نا چاہے تو اسے چاہیے کہ آنکھوں میں نیند حرام کرلے، اصول الی اللہ کا خواب دیکھنے کے لیے چند چیزوں کا التزام کرنا ضروری ہے۔
اول یہ کہ دن میں کچھ جسمانی محنت کر کے بدن کو ہلکا کر لینا چاہیے تاکہ رات کو قیام کرنے میں آسانی ہو۔
دوسرے یہ کہ رات میں قیام کرنے کے لیے دن میں معدہ کو غذا سے خالی رکھے۔
تیسرے یہ کہ دن کو قیلولہ کر کے رات کے قیام کے لیے اپنے کوتیار رکھے۔
چوتھے یہ کہ نفس کو روزانہ کے گناہوں سے محفوظ رکھے۔
جس نے دنیا میں ان چاروں چیزوں کو اختیار کرلیا۔ وہ تمام کامیابیوں سے آراستہ ہو گیا۔ آپ نے فرمایا کہ”عبادت کے احترام میں نیند اور غذا سے بے پرواہ ہوکر بیداری سے مجھے یہ دولت وصال حاصل ہوئی ہے۔
آپ جہاں تشریف لے جاتے مسجدمیں اعتکاف کی نیت سے قیام فرماتے، یا خانقاہ میں قیام فرماتے تھے۔ بالخصوص نماز کی بڑی پابندی رکھتے تے اور کسی حالت میں بھی آپ کی نماز قضا نہیں ہوئی تھی۔ نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد حلقۂ ذکر ہوتا تھا، اس کے بعد اپنے تمام اصحاب ومریدین کا محاسبہ فرماتے تھے، نماز تو اہم فرائض اسلام سے ہے۔ اگر کوئی نوافل کی ادائیگی میں بھی سستی کرتا یا کسی کار خیر میں تساہلی برتتا توحضرت بڑی سختی سے پیش آتے اورسخت تنبیہہ فرماتے تھے۔
آپ کے پاس جو نذرانے آتے تھے اسے آپ نے کبھی ایک دن سے زیادہ نہیں رکھا،جو کچھ ملتا ایک ہی دن میں اسے خرچ کردیتے تھے، سفر میں بس تین دن کا خرچ ہوتا تھا۔ اس سے زیادہ نہیں ہوتا تھا۔ دوسروں کی حاجت پوری کرنے میں آپ کو بڑا سکون ملتاتھا۔ آپ کے اندر کبروغرور کا شائبہ تک نہ تھا۔ آپ کی خاکساری کایہ عالم تھاکہ اگرچہ آپ ولایت کے بلند ترین مرتبہ مقام غوثیت پر فائز تھے۔ اور علمی اعتبار سے بھی کسی سے کم نہ تھے؛لیکن جب بھی کسی عالم، صوفی یابزرگ کا نام لیتے توبڑے ادب کے ساتھ لیتے۔ آپ کے اندراستغناء حد درجہ تھا۔ بہت سے امراء نے آپ کو جاگیر یں لکھنا چاہیں لیکن آپ نے انکار کردیا اور قبول نہیں فرمایا۔
آپ کے پاس جب کوئی آتا اورمرید ہونے کی خواہش ظاہر کرتا تو آپ فرماتے اب نہ مرید رہ گئے اورنہ پیر رہ گئے۔ اور جب وہ کہتا میں توبہ کر نا چاہتا ہوں توفوراً بخوشی اس کی طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے بھائی! آؤہم تم دونوں توبہ کریں۔ اس کے بعد ریاضت اور مجاہدے کی تعلیم و تاکید فرماتے۔ اور جب اس کی تعلیم وتربیت مکمل ہوجاتی تو اس کے لیے کوئی جگہ مقرر فرمادیتے تاکہ وہ وہاں جاکر لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کے فرائض انجام دے۔
حضرت غوث العالم اپنی مجلسوں میں اکثر وبیشتر علمی مسائل اور روحانی اسرار و رموز بیان فرمایاکرتے تھے۔ اورآپ کی زبانِ مبارک میں وہ حلاوت و اثر تھا کہ آپ کے کلام کی تا ثیر سے حاضرین مجلس پروجد وکیف کا عالم طاری ہوجاتاتھا۔
تعویز لکھنے میں آپ بڑی کراہت محسوس فرماتے تھے لیکن مریدین کی دلجوئی اور لوگوں کے اصرارپر کبھی تعویذ بھی لکھ دیتے تھے، جس جگہ لوگ صرف تعویذ کے لیے آپ کی خدمت میں آتے تو وہاں سے آپ فوراً دوسری جگہ کے لیے روانہ ہوجاتے اور فرماتے اصل چیز شریعت پر عمل اور قربِ الٰہی کی طلب ہے، اور یہ چیزیں اس مقصد کے حصول میں مانع ہوتی ہیں، اسی طرح جس جگہ آپ کی ولایت اور کرامت کاچرچا عام ہوجاتا تو وہاں سے بھی آپ فوراً دوسری جگہ چلے جاتے۔ شیخ کی فرمانبرداری اور ادب کایہ عالم تھاکہ آپ کے شیخ آپ سے کوئی کام نہیں لیتے تھے؛ لیکن آپ شیخ سے چھپا کر شیخ کا پیشاب پھینک دیا کرتے تھے، آپ نے پوری زندگی پنڈوہ شریف کی طرف پاؤں نہیں پھیلائے۔ اورنہ ہی پنڈوہ شریف کی طرف منھ کر کے کبھی تھو کا۔ حد یہ ہے کہ شیخ کی گلی کے کتے سے بھی پیار کرتے تھے۔
آپ نے کبھی کوئ مشکوک غذا نہیں کھائی۔ لوگوں نے بارہا کوشش کی اور طرح طرح سے کھلانا چاہا؛ لیکن پروردگار عالم نے آپ کو مشکوک غذا سے محفوظ رکھا۔ آپ کبھی کبھی عالم حیرت میں ہوتے تھے، اس عالم تحیّر میں جس پر آپ کی نظر پڑ جاتی وہ صاحب کمال ہوجاتا تھا۔ یہی خصوصیت حضرت نجم الدین کبریٰ رحمتہ اللہ علیہ میں بھی پائی جاتی تھی، حضرت نظام یمنی رحمتہ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ مسند عالی سیف خاں کہتے تھے کہ عین اسی عالم تحیر میں حضرت غوث العالم کی نگاہ مجھ پر پڑ گئی۔ مجھے جو کچھ بھی حاصل ہوا وہ بس اسی ایک نگاہ کا فیضان ہے۔
نہ تخت و تاج میں نہ لشکروسپاہ میں ہے
جو بات مردقلندر کی اک نگاہ میں ہے
اگرچہ آپ نے بادشاہی بھی فرمائی؛ لیکن مزاج ہمیشہ درویشانہ رہا، اور امور سلطنت کی مصروفیتوں کے باوجود فرائض و واجبات، سنن و نوافل کبھی ترک نہ فرماتے تھے۔غریبوں سے ہمدردی، محتاجوں کی حاجت روائی، مظلوموں اور دردمندوں کی دادرسی، سخاوت و فیاضی، خلق خدا کی خدمت اورمحبت آپ کے جزو اخلاق تھے۔


Islamic SMS/Messages/Post

For this type of post


Go to Blogs